General Zia ul Haq's reforms and Islamization of Pakistan

General Zia ul Haq's reforms and Islamization of Pakistan

 


Abstract:

                         On 10 February 1979, General Zia ul Haq promulgated new ordinances which were Enforcement of Hudood laws in Pakistan which includes Zina, Prohibition, Qazaf, and crimes against Property. These laws were enforced in the Country until The Protection of Women (Criminal Law Amendment) Act 2006, amend and repeal practically.  These laws came out as the most controversial laws in the history of Pakistan as they were intended to prevail Shariah laws throughout the country; These were part of General Zia ul Haq’s Islamization. The main reason for criticism of the Zina Ordinance and the makers of these laws didn’t differentiate between Zina (Adultery / Fornication) and Zina bil Jabar (Rape) to prove these two offences, resulting in many women prisoners in jails.

                              The Protection of Women (Criminal Law Amendment) Act 2006 was passed in December which amended and totally change the Hudood ordinances, amend the Dissolution of Marriage Act 1939, and made Inserts new Sections in the Pakistan Penal Code 1860, Code of Criminal Procedure 1898. Hudood Ordinances have been so changed by The Protection of Women (Criminal Law Amendment) Act 2006 that the punishments of Ta’zir are totally wiped out from them. Now, if someone is examined in Hudood Ordinances and a lesser amount of offence is proved than the charge, Court could not be able to sentence him to lesser punishment like Ta’zir.

                       This research paper is intended to find out the details and consequences of these Ordinances, especially in the context of usage of these is a nightmare for women. What are the defects in them? And what is the outcome of The Protection of Women (Criminal Law Amendment) Act 2006 and whether the present system of laws make them beneficial for Society or not?

خلاصہ:

10 فروری1979 کو جنرل ضیاء الحق نےاپنےآرڈیننس جاری کرنے کے اختیارکو استعمال کرتےہوئے حدود آرڈیننس کا نفاذکیا جس میں حدِ زنا، حدِقذف، شراب نوشی اور جرائم بر خلاف املاک کی حد شامل تھیں۔ یہ قوانین اس وقت تک ملک میں نافذ رہےجب تک  ویمن پروٹیکشن  ایکٹ 2006 کے ذریعےان میں ترامیم نہیں کی گئیں۔ یہ ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین قوانین تھے کیونکہ ان کے ذریعے ملک میں شرعی قوانین اور شرعی سزاؤں کا نفاذ کیا گیا۔ یہ قوانین دراصل جنرل ضیاءالحق کی اسلاما ئزیشن کاایک حصہ تھے۔ ان قوانین پر تنقید کی ایک بڑی وجہ زنا اور زنا بالجبر کےجرم میں امتیاز نہ رکھنا اور خواتین کی بے جا گرفتاریاں تھیں۔

ویمن پروٹیکشن ایکٹ دسمبر 2006 میں منظور کیا گیا۔ جس نے حدِ زنا ، حدِ قذف آرڈیننس ، تعزیراتِ پاکستان 1860، فوجداری قانون 1898،تنسیخِ نکاح ایکٹ 1939 میں ترمیمات کیں۔ ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2006 نےترامیم کے ذریعے حدود آرڈیننس کی شکل اور ہیئت کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا اور حدِ زنا اور حدِ قذف آرڈیننس میں اہم اور بنیادی تبدیلیاں کی گئیں جن کے باعث حد ثابت ہونے پر جو ذیلی سزائیں دی جاسکتیں تھیں اُن کو چونکہ حذف کردیا گیا اورتعزیراتِ پاکستان میں منتقل کردیا گیا جس سے اگرحد ثابت نہ ہو اور اس سےکم تر جرم ثابت ہو تو دیگر سزائیں حد کے تحت نہیں دی جاسکتیں۔

زیرِ تحقیق مقالے میں ان تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا کہ جس کی وجہ سے حدود آرڈیننس شدید تنقید کا نشانہ بنے اور کس طرح ان قوانین کا استعمال خواتین کے لیئے وبالِ جان بن گیا۔ ان قوانین میں کیا سقم تھے۔ اور ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2006 نافذہونے کے بعد ان مسائل سے کس حد تک ازالہ ممکن ہوا۔اس مقالے میں اس بات کا بھی تجزیہ کیا جائے گا کہ موجودہ نظام ویمن پروٹیکشن کے ذریعے کی جانے والی ترمیمات کے حوالے سے کس قدر مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

  تعارف :      

صدر جنرل ضیاءالحق نے اقتدار میں آتے ہی ملک میں شرعی قوانین اور اسلامی قانونی نظام کو نافذ کرنے کے لیئے متعددقوانین بنائے اور نافذ کیئے۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ پلٹ کر ملک میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ بعد میں 1984 میں انہوں نےصدر کی حیثیت اختیار کی ۔ اس دوران ضیاء الحق نے متعدد آرڈیننس جاری کیئے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ملک میں اسلامی نظامِ عدل رائج کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے تمام دینی اور شرعی سوچ رکھنے والے لوگوں نے کسی حد تک ان کا ساتھ بھی دیا جس سے انہیں حوصلہ افزائی بھی ملی۔ اس حوصلہ افزائی کی ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو اس وقت بہت ضرورت تھی تاکہ اقتدار کو دوام دیا جا سکے۔ بنیادی طور پر عوام میں پاکستان کی تخلیق سے ہی اس بات کی خواہش شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے کہ پاکستان اپنے بننے اور قائم ہونے کے مقصدکو حاصل کرے اور دنیا کے نقشہ پر ایک مثالی اسلامی ریاست بن کر اُبھرے ، لہذا اس وقت بھی اسی جذبے سے سرشار عوام نے شروعات میں ان اقدام اور ضیاءالحق کی اسلامی ریاست کے قیام کی نیت کا خیر مقدم بھی کیا۔ اسی سلسلے کا ایک حصہ حدود آرڈیننس بھی تھے۔ خاص طور پر زنا آرڈیننس کی دفعات سب سے زیادہ تنازعہ کا باعث بنیں ۔جس کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان سے زنا سے متعلق تمام دفعات کو منسوخ کر کے اسے زنا آرڈیننس میں نئی تعریفات کے ساتھ شامل کیا گیا۔ ان دفعات میں 366 ، 372، 373، 375، 376، 493، 497، 498 شامل تھیں ۔ اس کے علاوہ مجموعہ ضابطہ فوجداری میں بھی تبدیلیاں کی گئیں ۔ ان جرائم کی سزاؤں میں کوڑوں کی سزا اور ان کے ثابت کرنے کے شہادتوں کا معیار بھی تبدیل کیا گیا اور اس بات کا اظہار کیا گیا کہ یہ قوانین ملک میں اسلامی طرزِ زندگی کو فروغ دینے اور اسلامی فوجداری نظام کو قائم کرنے میں معاون ثابت ہونگےلیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب ان قوانین کو عملی جامہ پہنایا گیا اور نظام کی خرابیاں کھل کر سامنے آنےلگیں تو لوگوں میں اسلامی قوانین سے بیزاری اور بے چینی کا باعث بنی۔ آج صورتحال سب کے سامنے ہے کہ یہ اضطراب اور بیزاری ہمیں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔

حدود آرڈیننس اور خواتین     

خواتین کسی بھی معاشرے کا ایک اہم جُز ہیں جو کہ اگلی نسل کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ انہی کے ذریعے علم اور عمل صدیوں تک سفر کرتا ہے۔ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے۔ان آرڈیننسز نے سب سے زیادہ خواتین کو ہی متاثرکیا۔ ضیاء الحق نے چادر اور چار دیواری کا تصور پیش کیا جس نے خواتین کے درمیان تشویش کی لہر ڈور گئی ۔ زنا، زنا بالجبر اور لعان جیسے مقدمات میں یکدم ہی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین پاکستان کے مطابق " حدود قوانین کے نفاذکے دوران 70 سال کی خاتون سے لے کر 11 سال کی عمر کی بچی پر بھی زنا کےمقدمات بنائے گئے اور ان کوجیلوں میں رکھا گیا۔ انسانی حقوق کمیشن کی 2006 کی رپورٹ کےمطابق حدوو آرڈیننس کے نفاذ کے آغاز کے سالوں میں پولیس نے 1500 مقدمات سالانہ رجسٹر کیئے۔ [1] 1987-1980 کے دوران وفاقی شرعی عدالت نے 3،399 زنا کے مقدمات کی اپیلوں کی سماعت کی"۔[2] ایک صحافی کے1992 میں لکھے ہوئے آرٹیکل کے مطابق 70 فیصدسے زائد خواتین پولیس کی حراست کے دوران ہی زنا بالجبر کا شکار ہوئیں اور پولیس کی حراست میں مقدمہ رجسٹر کیئے بغیر کئی دن تک قید رکھا گیا۔ [3]یہ تمام صورتحال ،انسانی حقوق کی تنظیموں کی مزید فعالیت کا سببب بنی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اتنی فعال ہوئیں کہ عوام ان تنظیموں کو انصاف جلد حاصل کرنے کا آلہ کار سمجھنے لگے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب انصاف سیدھے اور آسان طریقے نہیں فراہم کیا جائے گا تو لازماً لوگ دوسرے راستے تلاش کریں گے۔

شرکت گاہ کی ریسرچ کے مطابق95 فیصد خواتین جو کہ نچلی عدالتوں میں سزاوارہوئیں انھیں اپیل میں رہا کر دیا گیا۔
[4]

زنا آرڈیننس1979 :

اس آرڈیننس کی متنازعہ ترین دفعات میں رجم کی سزا کو حد قرار دینا اور زنا اور زنا بالجبر مستوجب حد کا ثبوت تھیں؛

اس آرڈیننس کی دفعہ 8 کے مطابق        :

دفعہ 8 : زنا  یا  زنا بالجبر مستوجب حد کا ثبوت :  زنا یا زنا بالجبر کا ثبوت مندرجہ ذیل صورتوں میں سے  کسی ایک میں ہوگا یعنی؛

  ملزم کسی با اختیار عدالت  کے رو برو جرم کے ارتکاب کا اقرار کرے۔  (a)

(b)  کم ازکم چار بالغ  مسلمان مرد گواہان ، جن کے متعلق عدالت کو تزکیہ الشہود کےتقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اطمینان ہو کہ وہ صادق القول اشخاص ہیں اور بڑےگناہوں سے اجتناب کرنے والے ہیں، جرم کے لیئے لازمی دخول کے فعل کے، چشم دید گواہان کے طور پر گواہی دیں۔

بشرطیکہ اگر ملزم غیر مسلم ہے تو چشم دید گواہان غیر مسلم ہو سکتےہیں ۔

تشریح  : دفعہ ہذا تزکیہ الشہود کے معنی تفتیش کا وہ طریقہ ہے جو عدالت کسی گواہ کے قابل اعتماد ہونے کے بارے میں، اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیئے اختیار کرے۔ [5]

              اس دفعہ کے تحت زنا اور  زنا بالجبر کو ثابت کرنے کے حوالے سے کوئی تمیز نہیں رکھی  گئی جس کی وجہ سے ان دونوں جرائم میں فرق کرنا انتہائی مشکل ہوگیا۔ خواتین  زنا بالجبر کا مقدمہ درج کروانے سے خوف کھانے لگیں کہ ان کے پاس 4 گواہ موجود نہیں ہوتے تھے زنا بالجبر کے گواہ ملنا یوں بھی انتہائی مشکل امر ہے۔

              زنا کا مقدمہ کوئی بھی کسی کے خلاف پولیس اسٹیشن میں ایف- آئی- آر  کے  ذریعے رجسٹر کروا سکتا تھا جس کے بعد  ملزم کو دیگر کسی جرم کی طرح ہی مقدمے کا سامنا کرنا ہوتا تھا۔اس  سے پہلے یہ جرم تعزیراتِ پاکستان کا حصہ تھے اور  زنا  کا مقدمہ قابلِ راضی نامہ اور قابلِ ضمانت تھا ۔ زنا آرڈیننس میں اسے نا قابلِ راضی نامہ اور نا قابلِ ضمانت بنایا گیا۔  اس کا  غلط استعمال اس طرح ہوا  کہ زیادہ تر زنا کے الزامات خواتین پر لگائے گئے نا کافی ثبوت ہونے کےباوجود خواتین کو جیلوں میں قید رکھا گیا۔ خواتین قیدیوں کی جیلوں میں تعداد بڑھنے سے خرابیوں میں مزید اضافہ ہوا۔

زنا آرڈیننس اور نو آبادیاتی فوجداری نظام :

                     زنا  آرڈیننس اور  دیگر حدود آرڈیننسز کے ذریعے پورے ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس ملک میں پہلے سے موجود نظام کے ذریعے ؛  وہ  نظام جو کہ پہلے ہی اپنی خرابیوں کے باعث لوگوں کے لیئےوبالِ جان بنا ہوا تھا ۔ ہمارے ملک میں ہر سطح پر وہ نظام موجودتھا اور  ہے  جو ایک غالب قوم نے ایک مغلوب قوم کے لیئے ڈیزائن کیا تھا  1979 میں   جب یہ آرڈیننس جاری ہوئے اور آج تک ہم اس غلامانہ نظام سے جان چُھڑانے میں ناکام ہیں۔  نہ پولیس کا نظام ٹھیک کیاگیا نہ ہی کوئی تربیت اسلامی قانون اور اس کو نافذ  کرنے کے حوالے سے کسی بھی سرکاری ادارے میں کرنے پر  توجہ دی گئی۔ قانون سے لے کر اس کےنفاذ تک حد درجہ لاپرواہی تربیت کے لحاظ سے موجود تھی۔ لہذا  اسلامی  فوجداری نظام نافذ کرنے لیئے تربیت یافتہ اور خوفِ خدا رکھنے والی مشینری کا ہونابھی نا گزیر ہے۔

             اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک رپورٹ میں  جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال  کے مشاہدات جو انہوں نے   زنا آرڈیننس کےبارے میں دیئے ،     شامل کیئے گئے ہیں ۔  وہ کہتے ہیں کہ  اسلامی نظامِ عدل تفتیشی یا تحقیقی طرز کا ہے   جس میں جج یاقاضی بھی ایک تفتیش کار کردار ادا کرتا ہے اور خود بھی حقائق تک پہنچنے کی کو شش کرتا ہے جبکہ  پاکستان میں برطانیہ کا چھوڑا     ہوانظامِ عدل موجود ہے جس میں جج کی حیثیت صرف ریفری کی سی ہوتی ہے اور جج  اُس فریق کے حق میں فیصلہ کرتا ہےجس پاس مضبوط شواہد موجود  ہوں۔ ہمارے ججز اور وکلاء کی تربیت اسلامی نظامِ عدل کے طرز پر نہیں کی گئی نہ وہ اس نظام کی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے واقف ہیں۔ [6]      لہذا ہمارا موجودہ نظام اور تعلیم و تربیت اسلامی نظامِ عدل کے لیئے بالکل بھی موافقت نہیں رکھتا ۔ اللہ کی حدود کو قائم کرنے کے لیئے ہمیں ہرمرحلے پر تربیت کا انتظام کرنا ہوگا تا کہ نظام کی خرابیاں کسی بےگناہ کی زندگی مشکل نہ بنا دیں۔   اگر ایسا نہ کیا گیا تو اسلامی قوانین کی حیثیت باقی مخصوص قوانین کی طرح رہے  گی جن کو نافذ کرنے کے لیئے مخصوص عدالتیں موجود ہیں مثلاً نارکوٹکس کی عدالتیں ، دہشت گردی کی عدالتیں  وغیرہ ہیں ہم کبھی اسلامی نظام کومکمل طور پر نہیں نافذ کر سکیں گے اور اسلامی نظامِ عدل اسی طرح ایک خاص قانون بن کر رہے گا  جیسے آج  ویمن پروٹیکشن ایکٹ( تحفظِ خواتین)  2006  کے بعد موجود ہے۔  اسلامی نظامِ عدل صرف ایک قانون یا کچھ قوانین نہیں ہیں بلکہ یہ پورا  نظام اور طرز عمل ہے  جسے مکمل اپنایا جائے گا اس کے کچھ حصے نافذ کرکے ہم معاشرہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا  سکتے۔

وفاقی شرعی عدالت :

                      وفاقی  شرعی عدالت کا قیام بھی 1980 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے  سابق صدر   ضیاء الحق نے  آئین میں ترمیم کر کے کیا۔  آئین کےاس باب میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہی کئی ترامیم  سابق صدرضیاء الحق نے خود ہی کیں اور بعد کے ادوار میں بھی ہوتی رہیں۔ آئین کے باب 3 کے شروع میں ہی اس باب کے تمام آرٹیکلز کو پورے آئین پر بر تر حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح وفاقی شرعی عدالت کو سپریم کورٹ سے بھی برتریا تقریباً برابر کی حیثیت دینے کی کوشش کی   گئی۔

                               وفاقی شرعی عدالت  ایک چیف جسٹس سمیت زیادہ سے زیادہ آٹھ مسلمان ججوں پر مشتمل ہے ان میں زیادہ سے       زیادہ  چار ایسےافراد شامل کیئے جاتے ہیں جو ہائی کورٹ کے جج ہوں یا جج رہ چکے  ہوں یا جج بننے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔ تین ایسے علماء  شامل کیئے جاتے ہیں جو کہ اسلامی قانون پر دسترس رکھتے ہوں۔  وفاقی شرعی عدالت ،  وفاقی یا صوبائی مقننہ کے بنائے ہوئے قانون یا حکومت احکام کی کسی بھی شہری کی درخواست پر جانچ  پڑتال کر سکتی ہے کہ آیا یہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں ۔ شرعی عدالت کو غیر اسلامی قوانین کو  کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔اس کے علاوہ   حدود آرڈیننس کے تحت دی جانے والی سزاؤں کا جائزہ لے سکتی ہے کہ واقعی ماتحت عدالت نے قانون کے تمام تقاضے  پورے کیئے ہیں یا نہیں ۔ عدالت ماتحت  عدالتوں سے ریکارڈ بھی طلب کر سکتی ہے۔متعلقہ عدالت کی دی ہوئی سزا میں کمی یا اضافہ کرسکتی ہے ۔  شرعی عدالت میں وکیل کی حیثیت سے نام شامل کروانے کے لیئےضروری ہے کہ وہ شخص عدالت کی رائے میں عالم ہو اور شریعت کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ شرعی عدالت میں وکیل ملزم کے مقدمے کی وکالت نہیں کرتا بلکہ مقدمے سے متعلقہ اسلامی قوانین کی وضاحت کرتا ہے اور اپنے تحریری بیان میں اسلامی اصولوں کی توضیح کرتا ہے۔ عدالت کسی  پیچیدہ  مقدمے کے سلسلے میں بیرونِ ملک سے بھی کسی اسلامی قانون کے ماہر کی خدمات حاصل کر سکتی ہے اس شخص کی خدمات کا معاوضہ بھی خود عدالت ہی طے کرے  گی۔ [7]

                  حدود  کے جرائم سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا کردار بھی قابلِ غور ہے۔1981 میں وفاقی شرعی عدالت نے  اپنےایک فیصلے میں رجم کی سزا کو غیراسلامی قرار دیتے ہوئے سزا کو  کالعدم کردیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں احتجاج کی فضاء پیدا ہوگئی اور علمائے کرام نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا  لہذا اس دباؤ کےپیشِ نظر ضیاء الحق نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کو اختیار دیا کہ وہ اپنے دیئے ہوئے فیصلوں پر نظرِ ثانی کر سکتی ہے۔ لہذ ا سوائے ایک جج کےتمام ججز کو جو اس فیصلے میں شریک تھے ، کو تبدیل کیا گیا اور 1981 میں حکومت نے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست وفاقی  شرعی عدالت میں داخل کی ۔  نئی مقرر کیئے گئے بینچ نے 20 جون 1982 کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے رجم کی سزا کو اسلامی حد تسلیم کرتے ہوئے برقرار رکھا جبکہ 6 میں سےایک جج نے رجم کو اسلامی سزا تسلیم کیا لیکن اسےتعزیرقرار  دیا۔اس فیصلے کو سناتے ہوئے یہ ریمارکس بھی فیصلے میں شامل کیئے گئے کہ وفاقی  شرعی عدالت حدود آرڈیننس کی اسلامی حیثیت کو جانچنے کی اہل نہیں ہے۔[8]

عوام میں بڑھتی ہوئی بے  چینی :

  زنا آرڈیننس اور دیگر حدود آرڈیننس اپنے قانونی نقائص اور نفاذکی خرابیوں کے باعث عوام میں بےچینی اور بے یقینی کا نشان بن گئے  خصوصاً خواتین  زنا بالجبر کے مقدمات درج کروانے سے کترانے لگیں کیونکہ اگر وہ چار گواہان نہیں پیش کر پاتی تھیں تو زنا بالجبر کا مقدمہ زنا کے مقدمے میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ کچھ طلاق کو رجسٹر کروانے کے طریقے نے بھی اس تمام صورتحال میں اہم کردار کیا۔ طلاق کو رجسٹر کروانے میں چونکہ مرد کا اہم کردار ہوتا ہے لہذا کئی مرد حضرات طلاق رجسٹر کروانے یونین کونسل نہیں جاتے تھے اور اگر  عورت دوسری شادی کرلے تو اس سابقہ بیوی کے خلاف زناکامقدمہ درج کروا کر اسے قید کروا دیتے تھے۔ لہذا مرضی کی شادی ہو یا جائیداد کے معاملات ، حدود آرڈیننس کو خواتین کے خلاف ایک آلہ کار کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔لہذا عوام خصوصاً خواتین ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اورعلمی حلقے  حدود آرڈیننس کی مکمل منسوخی یا اس میں واضح اور مدلل ترامیم کا مطالبہ کرنے لگے۔

اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق :

  اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد  دنیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیئے افراد کے حقوق کا تحفظ لازمی ٹھہرا ۔ اس مقصد کے لیئے اقوامِ متحدہ نے کئی کمیشن بنائے جس میں  خواتین کے حقوق کا کمیشن بھی  شامل ہےاس کمیشن کے تحت ایک معاہدہ تشکیل پایا گیا جسے ہم " خواتین کےخلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمہ کا معاہدہ"  کےنام سے جانتے ہیں ۔[9]   اس معاہدے کی بہت سی شقیں اسلامی  اصولوں سے متصادم ہیں اور بہت سےمسلم ممالک نے  اس حوالے  سے اپنے  تحفظات کا اظہار  بھی کیا اور تحریری طور پر اقوامِ متحدہ میں جمع بھی  کروائے ہیں۔  پاکستان اس معاہدے کا رکن 1996 میں بنا اور معاہدے پر دستخط کیئے۔   حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اس معاہدے پر نہ دستخط کیئے ہیں نہ اس میں شامل ہیں۔ حدود آرڈیننسز کے  نفاذکی خرابیوں کی وجہ سے اقوامِ متحدہ اورانسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورتحال کا مسلسل بغور مشاہدہ کررہی تھیں اور حکومتِ پاکستان پر مسلسل دباؤ تھا کہ وہ  اپنے ملک میں بین الاقوامی معاہدہ جو کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے بارے میں ہے اور پاکستان اس معاہدہ پر دستخظ کرکے اس کا پابند بھی ہو چکا ہے، تو جلد از جلد اس معاہدے کو اپنے ملک میں عمل پذیر کروائے لہذا جب صدر مشرف کی حکومت آئی تو پاکستان کا سافٹ امیج سامنے لانے کے لیئے حدود قوانین میں ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2006 :

                          ویمن  پروٹیکشن ایکٹ دسمبر  2006  میں پاس ہوا۔ جس نے حدود آرڈیننسز ، تنسیخِ نکاح ایکٹ 1939 ،  ضابطہ فوجداری اور تعزیراتِ پاکستان میں بہت سی ترامیم کیں زنا بالجبر اور دیگر وہ جرائم جو کی حدود آرڈیننس میں ڈال دیئے گئے تھے ان تمام کو دوبارہ تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا اور اس میں سے کوڑوں کی سزا کو حذف کیا گیا  اسکے ساتھ ساتھ  زنا بالجبر  کے جرم کو ثابت کرنے کے لیئے چار گواہوں کی شرط کو بھی ختم کیا گیا ۔حدِ زنا آرڈیننس میں اب صرف اور صرف زنا کی حد موجود ہے۔ اس کےساتھ ساتھ ضابطہ فوجداری میں ترمیم کے ذریعے زنا، حرام کاری اور قذف کی شکایت درج کروانے کا طریقہ مکمل طور پر تبدیل کیا گیا  جس کی وجہ سے ان مقدمات کی شکایت براہِ راست  عدالت میں جج کےپاس  درج کی جائے گی اور ان کے لیئے مقصود گواہان کو اسی وقت حلف پر جرم کی گواہی دینی ہوگی  صرف اسی صورت میں  مقدمہ درج کیا جائے گا۔مزید یہ کہ جج کسی زنا کے مقدمے کو حرام کاری کے مقدمے میں تبدیل نہیں کر سکتا۔ حدِ زنا کے مقدمے کو   قابلِ ضمانت بنایا گیاہے۔ زنا آرڈیننس اور قذف آرڈیننس کی تمام دیگر نافذالوقت قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ حدود آرڈیننس میں سے تمام تعزیری سزاؤں کو ختم کردیا گیا۔

موجودہ صورتحال :

 قومی کمیشن برائے خواتین نے  ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے اثرات اور ثمرات پر ایک رپورٹ شائع کی  جس میں اپنی رپورٹ میں آنے والی مشکلات کا بھی ذکر ہے کہ اعداد وشمار اکٹھا کرنے کے لیئے انھیں اجازت نامے نہ مل سکے اس لیئے ان کی ریسرچ کا دائرہ صرف اسلام آباد کی جیلوں تک محدود رہا۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں اس بات کا اقرار کیاگیا ہے کہ زنا کےمقدمے کو درج کروانے کے اتنے مشکل اور پیچیدہ طریقے کی وجہ سے اب زنا کا ایک بھی مقدمہ درج نہیں ہوسکا  اس کے علاوہ حرام کاری کا اگر جھوٹا مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی گئی  یا  بوقتِ  شکایت دو گواہ نہ پیش کیئے گئے تو  اس صورت میں مدعی کو 5 سال قید اور دس ہزار روپےکا جرمانہ ہو سکتا ہے اس کے علاوہ ان تمام جرائم کا اختیارِ سماعت سیشن عدالت کے پاس ہونا بھی مقدمات کم ہونے کی ایک وجہ ہے۔ لہذا  حدِ زنا اور حرام کاری کے مقدمات عملاً ختم ہو چکے ہیں ۔  خواتین قیدیوں کی تعدادجیلوں میں کم ہوئی ہے اور زنا بالجبر کے مقدمات کو درج کروانے  میں اضافہ ہواہے۔ اب خواتین قیدیوں کی تعداد منشیات کے مقدمات میں زیادہ ہوتی ہے۔

اب صورتحال اس قدر خواتین کے حق میں ہے کہ ان معاملات میں مرد کے حقوق خطرےمیں پڑچکے ہیں کیونکہ ویمن پروٹیکشن ایکٹ سے پہلے مرضی کی شادی کرنے کی صورت میں خاتون پر زنا کا مقدمہ کر کے جیل میں ڈلوا دیا جاتا تھا اب ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے بعد چونکہ ایسا کرنا  ناممکن ہو گیا ہے لہذا اب مرضی کی شادی کرنے کی صورت میں خاتون کے رشتہ دار مرد پر خاتون کے اغواء کا مقدمہ کروا کر اسے جیل میں ڈلوا دیتے ہیں۔ [10]

تبصرہ :

  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام اور اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ  کی خواہش ہر پاکستانی کے دل میں ہے وہ چاہتا ہے کہ اس انصاف اور عدل سے محظوظ ہو سکے جو کہ اسے ا للہ کی کتاب اور اس کے احکام کی صورت میں حاصل ہے۔  اسی لیئے آئین کے آرٹیکل 227 میں بھی شامل کر دیا گیا کہ اس مملکت میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا  با وجود اس کے کہ آرٹیکل 8 کے تحت بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہر قانون کالعدم  کرنے کا اختیارموجود تھا ، پھربھی اس آرٹیکل کو شامل کرنے کی بھی یہی خواہش اور منشا ء تھی کہ بنیادی حق کے ساتھ ہر وہ حق اور فرض جو اللہ کی کتاب نافذ کرتی ہے ، اس پر عمل کروایا جائے اور اسے نافذ کروایا جائے گا۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس رہے اسلامی نظامِ عدل کے حق تو دور مظلوم عوام کو بنیادی حق بھی میسر نہ آسکے۔ حقوق کا جھکاؤ ہمیشہ ایک طرف رہا  اس میں توازن کا حسن جو اسلام پیدا کرتا ہے ہم اسے کبھی حاصل نہ کر سکے۔حدود آرڈیننس نے اگر خواتین کے حقوق سلب کر لیئے تو اب ویمن پروٹیکشن ایکٹ2006  کے بعدخاتون کے خلاف شکایت کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکنات میں سے ہے ۔ دونوں ہی صورتوں میں قوانین ایک صنف کی طرف جھکتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں ۔ ویمن پروٹیکشن ایکٹ2006  کے بعد اگر 16 سال کی کوئی لڑکی اپنی مرضی سے زنا کی مرتکب ہوتی ہے تو اسے بھی زنا بالجبر ہی سمجھا جائے گا۔ صاف نظر آتا ہےکہ قوانین ایک صنف کی طرف جھک گئے ہیں حالانکہ قانون کو صنفی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیئے ۔ قانون کا اولین مقصد مجرم  کو سزا دینا اور معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کر کے افراد کو قانون کا پابند بنانا ہے اس میں صنف کو اس حد تک مدِنظر رکھنا کہ قوانین صرف اسی بنیاد پر بنائے جانے لگیں کہ جرم خاتون نے کیا ہے یا مرد نے، شاید کچھ وقت کے لیئے توفائدہ مند ہو لیکن بادی النظر میں یہ کسی طرح بھی فائدہ مندنظر نہیں آتا۔  

               جہاں تک اسلامی نظامِ عدل کا تعلق  ہے میرے خیال میں اسلامی نظامِ حیات ایک مکمل ضابطہ ہے اور ہم اس کے محض کچھ حصے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔   اسی لیئے ہم اس کے فوائد حاصل کرنے میں ناکام  ہیں ۔جس معاشرے میں نکاح آسان ہو اور حکومت ہر لحاظ سے اس بات کو یقینی بناتی ہو کہ عوام کی تربیت سے لے کر ان کو میسر ہونے والےوسائل تک نکاح اور ازداواجی زندگی کی تحفظ کرنے والی واقعتاً فلاحی ریاست ہو، تو پھر زنا کی سزا ضرور بزور طاقت نافذ کی جانی چاہیئے۔  اس کے لیئے عوام کی تربیت  بے انتہا ضروری ہے کہ اگر ملزمان خود اپنے جرم کا اقرار نہ کریں تو گواہان کا معیار وہی ہو جو کہ شرعی سز ا کے لازمی ہے اور اگر جھوٹی گواہی ثابت ہو جائے تو اس صورت میں بھی فوری اور عبرت ناک سزائیں دی جائیں تاکہ لوگ دوسروں پر جھوٹے بہتان نہ باندھیں۔لوگوں کو قانون کے ذریعے اخلاقی اقدار کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ اخلاقیات صرف اور صرف دین اور خوفِ خدا سے ہی سکھائی اور  عمل پذیر کروائی جا سکتی ہیں ۔ اس سلسلےمیں علماء بھی بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں ۔حکومت کو  چاہیئے کہ عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے اور دولت کے ارتکاز کو ختم کرنے کے اقدامات کرے کیونکہ یہ بھی جرم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

            اسلامی نظامِ عدل کو مکمل نافذ کیا جائے اسے محض ایک خاص قانون نہ بنایا جائے۔ قاضی ، وکیل ، فریقینِ مقدمہ ، تفتیش وتحقیق، پولیس غرضیکہ نظامِ عدل کا ہر پہلو اسلامی نظامِ عدل کی گواہی دیتا ہوا نظر آئے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں جرم کرنے کے اور اس سے بچنے  کے اچھے مواقع میسر ہیں وہیں یہی ٹیکنا لوجی نظامِ عدل کے ہاتھ بھی مضبوط کرتی ہوئی نظر آتی  ہے لہذا نظامِ عدل کی پوری مشینری کی جدید خطوط پر تربیت کی جائے اور ڈی این اے پروفائلنگ کے طریقے کو عام کیا جائے۔

 



[1]HRCP, 2006: 10-11

[2] Jhangir and Jillani,1990:79

[3] Dorothy Thomas wrote in an article in 1992 that more than 70 per cent of women in police custody were subjected to rape by police officials. She wrote, “Women were kept in lockups for days without formally registering a case against them or producing them before the magistrate within a prescribed 24-hour period. Most sexual abuse of women detainees occurred in this period of invisibility”. The issue of the rise in custodial rape as a result of the promulgation of the Hudood Ordinances remained one of the key concerns in the women’s rights movement in Pakistan. (Study to Assess Implementation Status of Women Protection Act 2006 See at http://www.ncsw.gov.pk/previewpublication/4) page 2

 

[4] The injustices caused by Hudood Ordinances were evident from the fact that 95 per cent of accused women who were found guilty by the trial court were subsequently acquitted by the appellate court. ( Shirkat Gah.(2004). “ Why Hudood Ordinances must be repealed”, Women Resource Centre. See at http://shirkatgah.org/shirkat/?p=13354. Page 4

[5] میاں، انعام الحق، میاں، اسد حکیم، مجموعہ تعزیراتِ پاکستان معہ اسلامی حدود قوانین 1979، منصور بک ہاؤس، لاہور، 1999، ص، 603۔

[6] 4. The administration of justice in Islam is based on the “Inquisitional System” rather than the “Adversary System”. Under the Inquisitional System, the qazi has to simultaneously perform the duties of an investigator and judge. But, Pakistan has been following the “Anglo-Saxon” or Adversary System inherited from the British. Under this system, the position of a judge is like a referee in a tennis match., 5. The duty of the judge is not to find the truth by thoroughly investigating the matter, but rather to declare judgment in favour of the party having more “Evidential Points”. The training of our judges and lawyers is not based on an inquisitional System, therefore, they are not familiar with its intricacies. (OBSERVATIONS BY JUSTICE DR. JAVID IQBAL, A CRITIQUE OF THE ZINA ORDINANCE (ISLAMABAD, 2006), The Critical Report on Hudood Ordinances 1979(First Edition May 2007) pp. 95-96 available at http://cii.gov.pk/Publicationss.aspx.

 

 

 

[7]  Mahmood.M, The Constitution of Pakistan 1973, Al-Qanoon Publishers, Lahore, 2015 pp. 111-118

[8] Murshed, S.Iftikhar, The Hudood Ordinances of Pakistan and the Denial of Justice posted on February 14, 2012, in Archives, Vol.5, see at  http://www.criterion-quarterly.com/the-hudood-ordinances-of-pakistan-and-the-denial-of-justice/, PLD 1981, FSC 243., FSC 1983 (1-A), pp. 479, 480.

[9] CEDAW, Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination against Women.

[10] Study to Assess Implementation Status of Women Protection Act 2006 See at http://www.ncsw.gov.pk/previewpublication/4) page 8

 

 

Comments

Popular posts from this blog

Why Death Penalty Is Always Given Before Sunrise And After Fajr In Pakistan?

4 Different Types of Divorce in Islam